ہے چشم نم ، مری پازیب چوڑیاں خاموش
اداس اداس ہیں کنگن، تو بالیاں خاموش
کیا ہے کوچ پرندوں نے رت بدلتے ہی
چمن اداس ہے، پیڑوں کی ڈالیاں خاموش
جہاں پہ اپنی محبت کی جذب ہیں گونجیں
وہ کوہ سار ہیں خاموش، وادیاں خاموش
لباس پہنے ہوئے ،زر نگار کرنوں کا
بلا رہی ہیں پہاڑوں کی چوٹیاں خاموش
نہ جانے پھول نے کیا کان میں کی سرگوشی
کہ ہو گئی ہیں جو یکلخت تتلیاں خاموش
جہاں سے دل میں تو اترا تھا خواب بن کے کبھی
ہیں اب کے سونی وہ آہٹ سے سیڑھیاں خاموش
نہ ساز ہے نہ کوئی سوز ، صحنِ الفت میں
گزر گئی ہیں دسمبر کی سردیاں خاموش
نہ جانے کون مسافر ہے جس کے جانے سے؟
اداس شام ہے گاؤں کی ڈیوڑھیاں خاموش
یہ کس فضا میں لیے جارہی ہو سانس الماس
شکار ہونے کے ڈر سے ہیں ہرنیاں خاموش
ڈاکٹر الماس کبیر جاوید
No comments:
Post a Comment