نچوڑتا ہے جو آنکھوں سے نیند ، آب کے ساتھ
گزارتا ہوں دن اپنا اُس ایک خواب کے ساتھ
میں گیندا ، میں نے رکھی انفرادیت قائم
َرکھا گیا تھا مجھے گچّھےمیں گلاب کے ساتھ
ابھی بھی دھندلا ہےمنظر کچھ اورکھول پرت
مرا سوال کھڑا ہے ترے جواب کے ساتھ
یہ شہر سارا توپردے میں بھی کھلا ہوا ہے
کسے برہنہ کہیں کون ہے حجاب کے ساتھ
دلِ تباہ کو حاصل ہے لطفِ خودداری
کہاں جنوں کا تعلق ہےاحتساب کے ساتھ
جوچڑھ گئی ہے نفاست زباں پہ، جاتی نہیں
ذرا سا بیٹھا تھا اردو کی اک کتاب کے ساتھ
ملا تو طرزِ تخاطب کا عزمؔ بھید کُھلا
لیا تھا اُس نے مرا نام تو جناب کے ساتھ
No comments:
Post a Comment