کوئی تو جا نہ سکا مہر و ماہ سے آگے
نکل گیا کوئی حدِ نگاہ سے آگے
اُکھڑ چکے تھے قدم احتیاط کے لیکن
مرا جنوں تھا خطِ انتباہ سے آگے
لہو بہائے بنا نصرتیں نہیں ملتیں
زمیں ہے سبز مگر رزم گاہ سے آگے
یہ شخص، پاؤں کے چھالے ہیں جس کا رختِ سفر
ابھی گیا ہے اسی شاہراہ سے آگے
تو جس کو مل گیا پرواز مل گئی اس کو
زمیں کہاں ہے تری جلوہ گاہ سے آگے
کرم یہ کس کا تھا پہنچا یقیں کی منزل تک
بڑھا تھا وہ تو رہِ اشتباہ سے آگے
یہ سینہ کوبی، یہ ماتم وسیؔم ترک بھی کر
کچھ اور رنگ ہیں سرخ و سیاہ سے آگے
No comments:
Post a Comment