Urdu Deccan

Sunday, March 5, 2023

رشید لکھنوی

یوم پیدائش 05 مارچ 1847

ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے
کوئی وعدہ سچ جو ہوتا تو کچھ اعتبار کرتے

جو نہ صبر اور دم بھر ترے بے قرار کرتے
ابھی برق کا طریقہ فلک اختیار کرتے

اگر اتنی بات سنتے کہ ہے عشق میں مصیبت
کبھی ہم نہ تیری خاطر دل بے قرار کرتے

دل زار بے خبر تھا کیا قتل تو مزا کیا
یہ سپہ گری ہے پہلے اسے ہوشیار کرتے

یہی چاہتے ہیں اے جاں مٹے غم کہ جان جائے
ابھی موت گر نہ آتی ترا انتظار کرتے

غم و درد و رنج سہہ کے تجھے دیتے ہم دل اپنا
انہیں بے وفائیوں پر ترا اعتبار کرتے

جو سفر کا وقت آیا نہ پکارے ساتھ والے
ابھی آنکھ لگ گئی تھی ہمیں ہوشیار کرتے

جو خلاف امید کے ہو تو شکستہ خاطری ہے
کئی ٹکڑے دل کے ہوتے جو تم ایک وار کرتے

وہ نہ آئے مر گئے ہم اگر آتے بھی تو کیا تھا
یہی جان صدقے کرتے یہی دل نثار کرتے

ہمیں جان دے کے مارا ہمیں دے کے دل مٹایا
نہ غم فراق ہوتا نہ خیال یار کرتے

وہ ادا تھی قتل گہہ میں کہ بیان سے ہے باہر
مرے دل پہ زخم پڑتا وہ کسی پہ وار کرتے

تری سمت کی توجہ نہ کبھی جہان فانی
جو ذرا ثبات پاتے تو کچھ اعتبار کرتے

خبر اس کی پہلے ہوتی کہ نہ آئے گا یہ ہم کو
تو رشیدؔ شعر کا فن نہ ہم اختیار کرتے

رشید لکھنوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...