ضبط فغاں نہیں ہے مرے دسترس کی بات
جی بھر کے رولوں یہ بھی نہیں میرے بس کی بات
آدم بوصف خاک نژادی ہے رو بہ عرش
ثابت ہوئی ہے آج یہ صدہا برس کی بات
سنتا ہے کون اہلِ نظر سے حدیث دل
اہل ہوس کو بھاتی ہے اہل ہوس کی بات
وہ انہماک تھا کہ میں کچھ بھی نہ سن سکا
صحن چمن کا حال نہ کنج قفس کی بات
دل نے کبھی خرد کی امامت نہ کی قبول
غنچے کو نا پسند ہوئی خار و خس کی بات
اس دور کا مذاق ہی بگڑا ہوا سا ہے
گویا کوئی دلیل ہے ہر بوالہوس کی بات
مایوسیوں میں تیر تبسّم تھا دلنواز
جیسے کسی طبیب مسیحا نفس کی بات
No comments:
Post a Comment