کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا
درد کا ساتھ مسلسل نہیں رہنے دیتا
ہوش کی سرد نگاہوں سے تکے جاتا ہے
کون ہے جو مجھے پاگل نہیں رہنے دیتا
وقت طوفان بلا خیز کے گرداب میں ہے
سر پہ میرے مرا آنچل نہیں رہنے دیتا
ہاتھ پھیلاؤں تو چھو لیتا ہے جھونکے کی طرح
ایک پل بھی مجھے بے کل نہیں رہنے دیتا
خواب کے طاق پہ رکھی ہیں یہ آنکھیں کب سے
وہ مری نیند مکمل نہیں رہنے دیتا
میرے اس شہر میں اک آئنہ ایسا ہے کہ جو
مجھ کو اس شخص سے اوجھل نہیں رہنے دیتا
عنبرین صلاح الدین
ہمیں ملنا درختوں سے پگھلتی برف دھانی کونپلوں میں جب بدل جائے
ہمیں ملنا، ہمارے دل میں ٹھہرا زمہریری وقت شاید تب بدل جائے
ہمیں ملنا نئے امکان سے، یعنی نئے قصے، نئے عنوان سے ملنا
ہمیں ملنا کہ جب مطلب کے سب الفاظ اور الفاظ کا مطلب بدل جائے
ہم اپنے حق میں تیرے سب کہے الفاظ گنتے ہیں، پھر ان کا وزن کرتے ہیں
بھلے تعداد سے معیار افضل ہے مگر معیار جانے کب بدل جائے
تماشا گر، ہمارے آئنوں پر گرد ہے، تیرا تماشا بھی پرانا ہے
مگر شاید ہماری سیربینیں ٹھیک ہونے تک ترا کرتب بدل جائے
ہماری زندگانی بس ہماری حیرتوں کا ایک بے پایاں تسلسل ہے
نہ جانے کس گھڑی پلکیں جھپک جائیں، کسے معلوم منظر کب بدل جائے
کوئی بتلائے ناممکن کو ممکن میں یہاں ڈھلتے ہوئے کیا دیر لگتی ہے؟
تو پھر صحرا میں ساگر اور ساگر میں مہاساگر نہ جانے کب بدل جائے
عنبرین صلاح الدین
No comments:
Post a Comment