اس شہر نگاراں میں کوئی تجھ سا نہیں ہے
میں کیسے بتاؤں تجھے تو کتنا حسیں ہے
پھولوں کا گداز اک ترے پیکر کا حوالہ
مہتاب سے بڑھ کر تری رخشندہ جبیں ہے
خوشبو ترے سانسوں کی رچی ہے رگ و پے میں
محسوس یہی ہوتا ہے تو میرے قریں ہے
کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا
اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے
وہ جھیل کی پہنائی میں اک قطرہ ہے لیکن
رک جاتا ہے جب پلکوں پہ آ کر تو نگیں ہے
ذکر غم دل اوروں سے اچھا نہیں لگتا
یہ درد محبت تو مرے دل کا مکیں ہے
ہنستا ہوا ملتا تھا سدا بزم میں تنہاؔ
اب جانے وہ کیوں اتنا اداس اور حزیں ہے
No comments:
Post a Comment