یوم پیدائش 20 جنوری 1964
ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے
مرے احساس کے کچھ کھنڈروں سے گھر نکل آئے
لگیں دینے سبق وہ پھر پرندوں کو اڑانوں کا
ذرا سے شہر میں جب چینٹیوں کے پر نکل آئے
یہ عالم ہے کہ جب بھی گھر میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھا
پرانے کاغذوں سے یاد کے منظر نکل آئے
دکھائی دے کبھی یہ معجزہ بھی مجھ کو الفت میں
کسی شب چاند بن کر وہ مری چھت پر نکل آئے
ملے ہیں زخم جب سے شوخؔ وہ گلشن سے برتا ہے
بھروسہ کچھ نہیں کس پھول سے پتھر نکل آئے
پروندر شوخ
No comments:
Post a Comment