یوم پیدائش 14 فروری 1940
درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ
وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ
آسماں دور نہیں ابر ذرا نیچے ہے
روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ
تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو
بات پتھر میں اترتی ہے مگر آہستہ
تیری زلفوں سے اسے کیسے جدا کرتا میں
زندگی یوں بھی سنورتی ہے مگر آہستہ
فاروق نازکی
No comments:
Post a Comment