یوم پیدائش 26 فروری 1950
بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا
کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے
تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا
کیا دن تھے مجھے شوق سے مہمان بلانا
اور خود کو مگر خدمت مہمان میں رکھنا
کیا وقت تھا کیا وقت ہے اس سوچ سے حاصل
چھوڑو جو ہوا کیا اسے میزان میں رکھنا
انسان کی نیت کا بھروسہ نہیں کوئی
ملتے ہو تو اس بات کو امکان میں رکھنا
پرسش ہے بہت سخت وہاں فرد عمل کی
کچھ نعت کے اشعار بھی دیوان میں رکھنا
مخلص ہو رہو ٹوکا ہے کس نے تمہیں انجمؔ
رفتار زمانہ بھی مگر دھیان میں رکھنا
انجم خلیق
No comments:
Post a Comment