یوم پیدائش 27 فروری
اپنی قبا کو اپنے بدن سے اتار کر
تتلی کے رنگ اوڑھ کے سولہ سنگھار کر
رکھتا ہے پھول نیند کی انگڑائیوں میں وہ
ہر روز میرے خواب کی پلکیں سنوار کر
کر قید آرزو کے جزیروں کو ہاتھ میں
گہرے سمندروں میں سفینے اتار کر
رگ رگ ادھیڑ دی مرے اجلے وجود کی
دستِ جنوں نے نوچا ہے مجھ کو پکار کر
تیرہِ شبی مٹا دے جبینِ سحر سے پھر
سورج کے رخ سے رات کی چادر اتار کر
پہلے تُو گزرے وقت کی وسعت میں ڈھل ذرا
پھر میرے انتظار کے لمحے شمار کر
اے باغبان دیکھ تو فصل خزاں کا رنگ
گلشن کی خاک کو بھی شناسا بہار کر
زبدہ نہ کر تو غم جو زمانہ خلاف ہے
کچے گھڑے کی آس پہ دریا کو پار کر
زبدہ خان
No comments:
Post a Comment