نظم
تیرے چہرے پہ پڑے درد کے وحشی دھبے
قصہ بتلاتے ہیں حالات کی تنگ دستی کا
کیسے پاتے ہیں نمو زیست میں جاں لیوا عذاب
پھیکا پڑ جاتا ہے کس واسطے رنگ ہستی کا
کیسے دب جاتا ہے غربت سے محبت کا گلا
ہجر کھا جاتا ہے کسطرح سے چہرے کے نقوش
حال بتلاتے ہیں شکنوں میں دبے رنج و الم
کتنا پر نور تھا چہرہ کیسے گہرے تھے نقوش
لوگ کہتے ہیں کہ دن رات بدل جاتے ہیں
وقت جب بدلے تو حالات بدل جاتے ہیں
آ ہی جاتا ہے سکون ایک دریدہ دل کو
فلسفے ، سوچ و خیالات بدل جاتے ہیں
عزم پختہ ہو اگر حوصلہ اقبال سا ہو
تو کنول کتنے ہی تالاب میں کھل جاتے ہیں
اک سمندر میں پناہ لیتے ہیں کتنے دریا
کتنے سورج ہیں جو اک شام میں ڈھل جاتے ہیں
عمیر ساحل
No comments:
Post a Comment