Urdu Deccan

Sunday, March 28, 2021

عمیر ساحل

 نظم

تیرے چہرے پہ پڑے درد کے وحشی دھبے

قصہ بتلاتے ہیں حالات کی تنگ دستی کا

کیسے پاتے ہیں نمو زیست میں جاں لیوا عذاب

پھیکا پڑ جاتا ہے کس واسطے رنگ ہستی کا


کیسے دب جاتا ہے غربت سے محبت کا گلا

ہجر کھا جاتا ہے کسطرح سے چہرے کے نقوش

حال بتلاتے ہیں شکنوں میں دبے رنج و الم

کتنا پر نور تھا چہرہ کیسے گہرے تھے نقوش


لوگ کہتے ہیں کہ دن رات بدل جاتے ہیں

وقت جب بدلے تو حالات بدل جاتے ہیں

آ ہی جاتا ہے سکون ایک دریدہ دل کو

فلسفے ، سوچ و خیالات بدل جاتے ہیں


عزم پختہ ہو اگر حوصلہ اقبال سا ہو

تو کنول کتنے ہی تالاب میں کھل جاتے ہیں

اک سمندر میں پناہ لیتے ہیں کتنے دریا

کتنے سورج ہیں جو اک شام میں ڈھل جاتے ہیں


عمیر ساحل


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...