یوم پیدائش 29 مارچ
پس یقیں کہیں ہم بھی ترے گمان میں ہیں
ترا نشاں ہیں یہ تارے جو آسمان میں ہیں
حرم سرا تھا ترا دل سو چھوڑ آئے اسے
وگرنہ کہنے کو اب بھی اسی مکان میں ہیں
مرے نصیب کے خوش رنگ خواب اور سراب
نہ اس جہان میں تھے اور نہ اس جہان میں ہیں
میں اپنے واسطے ان میں سے خود ہی چن لوں گی
وہ سانحے جو میسر تری دکان میں ہیں
سراب ہیں یہ تمہارے سب آئنہ خانے
بصارتیں بھی نہ جانے کس امتحان میں ہیں
کبھی وہ آئنہ چشم میں سنورتے تھے
وہ سارے خواب نصابوں کے جو بیان میں ہیں
نہ جانے لائیں گے دل پر تباہیاں کیا کیا
وہ حادثے جو ابھی تک تری کمان میں ہیں
یہ پل صراط کہاں لے چلا ہمیں انجمؔ
نہ ہم زمیں کے رہے اور نہ آسمان میں ہیں
انجم عثمان
No comments:
Post a Comment