مالی کی حرکتوں پہ قدغن ہے
اس لیے داغدار گلشن ہے
خون کرنا پڑا ہے خواہش کا
ہم یہ سمجھے تھے سہل جیون ہے
ہوش آتے ہی مشکلیں دیکھیں
میری خوشیوں کا عہد بچپن ہے
اُس کو کرنا ہے فیصلہ میرا
اس لیے تیز آج دھڑکن ہے
کتنے رازوں کو دفن ہم نے کیا
دل ہمارا بھی ایک مدفن ہے
ایک پل میں ،میں ہو گیا تیرا
تیرے چہرے پہ کتنا جوبن ہے
ہم کو کیا لینا شہر سے فیضی
دشتِ ویراں میں اپنا مسکن ہے
میر خوشحال فیضی
No comments:
Post a Comment