ایسا تو نہیں دل میں محبت ہی نہیں تھی
اظہار محبت کی بھی ہمت ہی نہیں تھی
آساں تو نہیں عشق کا سودا مرے ہمدم
ایسا بھی نہیں مجھ میں وہ دولت ہی نہیں تھی
ترسیلِ عدم سے نہ ہوا عشق کا اظہار
افسوس زمانے میں سہولت ہی نہیں تھی
ہم اپنی انا لے کے ہی واپس چلے آئے
تکرار کی ہم میں کوئی عادت ہی نہیں تھی
ہم بس کہ کتابوں میں ہی کھوئے رہے اب تک
دل کے لئے اپنے کوئی مہلت ہی نہیں تھی
پہلی ہی نظر میں ترا ہونا بھی عجب تھا
اور بن ترے دل میں کوئی حاجت ہی نہیں تھی
اُس وقت میرے نام سے واقف نہ تھی دنیا
الیاس کی اس دور میں شہرت ہی نہیں تھی
محمد الیاس کرگلی
No comments:
Post a Comment