Urdu Deccan

Wednesday, March 17, 2021

انور ‏صدیقی

یوم پیدائش 15 مارچ 1928

ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے

اے روح عصر میں تیرا ہوں تیرا حصہ ہوں
خود اپنا خواب سمجھ کر ذرا سنوار مجھے

بکھر کے سب میں عبث انتظار ہے اپنا
جلا کے خاک کر اے شمع انتظار مجھے

صدائے رفتہ سہی لوٹ کر میں آؤں گا
فراز خواب سے اے زندگی پکار مجھے

عذاب یہ ہے کہ مجھے جیسے پھول اور بھی ہیں
صلیب شاخ سے دست خزاں اتار مجھے

غریب شہر نوا ہی سہی مگر یارو
بہت ہے اپنی ہی آواز کا دیار مجھے

انور صدیقی

کیا شہر میں ہے گرمئ بازار کے سوا
سب اجنبی ہیں ایک دل زار کے سوا

اس دشت بے خودی میں کہ دنیا کہیں جسے
غافل سبھی ہیں اک نگۂ یار کے سوا

چہروں کے چاند راکھ ہوئے بام بجھ گئے
کچھ بھی بچا نہ حسرت دیدار کے سوا

عالم تمام تیرگئ درد مضمحل
ہاں اک فروغ شعلۂ رخسار کے سوا

ساری شفق سمیٹ کے سورج چلا گیا
اب کیا رہا ہے موج شب تار کے سوا

جس سمت دیکھیے ہے صلیبوں کی اک قطار
کوئی افق نہیں افق دار کے سوا

انور صدیقی

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...