یوم پیدائش 15 مارچ 1928
ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے
اے روح عصر میں تیرا ہوں تیرا حصہ ہوں
خود اپنا خواب سمجھ کر ذرا سنوار مجھے
بکھر کے سب میں عبث انتظار ہے اپنا
جلا کے خاک کر اے شمع انتظار مجھے
صدائے رفتہ سہی لوٹ کر میں آؤں گا
فراز خواب سے اے زندگی پکار مجھے
عذاب یہ ہے کہ مجھے جیسے پھول اور بھی ہیں
صلیب شاخ سے دست خزاں اتار مجھے
غریب شہر نوا ہی سہی مگر یارو
بہت ہے اپنی ہی آواز کا دیار مجھے
انور صدیقی
کیا شہر میں ہے گرمئ بازار کے سوا
سب اجنبی ہیں ایک دل زار کے سوا
اس دشت بے خودی میں کہ دنیا کہیں جسے
غافل سبھی ہیں اک نگۂ یار کے سوا
چہروں کے چاند راکھ ہوئے بام بجھ گئے
کچھ بھی بچا نہ حسرت دیدار کے سوا
عالم تمام تیرگئ درد مضمحل
ہاں اک فروغ شعلۂ رخسار کے سوا
ساری شفق سمیٹ کے سورج چلا گیا
اب کیا رہا ہے موج شب تار کے سوا
جس سمت دیکھیے ہے صلیبوں کی اک قطار
کوئی افق نہیں افق دار کے سوا
No comments:
Post a Comment