یوم پیدائش 20مارچ 1922
ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں
ہمیں فریاد کی عادت ہے ہم فریاد کرتے ہیں
متاع زندگانی اور بھی برباد کرتے ہیں
ہم اس صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں
ہواؤ ایک پل کے واسطے للہ رک جاؤ
وہ میری عرض پر دھیمے سے کچھ ارشاد کرتے ہیں
نہ جانے کیوں یہ دنیا چین سے جینے نہیں دیتی
کوئی پوچھے ہم اس پر کون سی بیداد کرتے ہیں
نظر آتا ہے ان میں بیشتر اک نرم و نازک دل
مصائب کے لیے سینے کو جو فولاد کرتے ہیں
خدا کی مصلحت کچھ اس میں ہوگی ورنہ بے حس بت
کسے شاداں بناتے ہیں کسے ناشاد کرتے ہیں
نہیں دیکھا کہیں جو ماجرائے عشق میں دیکھا
کہ اہل درد چپ ہیں چارہ گر فریاد کرتے ہیں
اسیر دائمی گر دل نہ ہو تو اور کیا ہو جب
کہیں وہ مسکرا کر جا تجھے آزاد کرتے ہیں
کیا ہوگا کبھی آدم کو سجدہ کہنے سننے سے
فرشتے اب کہاں پروائے آدم زاد کرتے ہیں
ہمیں اے دوستو چپ چاپ مر جانا بھی آتا ہے
تڑپ کر اک ذرا دل جوئی صیاد کرتے ہیں
بہت سادہ سا ہے اے کیفؔ اپنے غم کا افسانہ
وہ ہم کو بھول بیٹھے ہیں جنہیں ہم یاد کرتے ہیں
سرسوتی سرن کیف
No comments:
Post a Comment