Urdu Deccan

Monday, March 1, 2021

شیامل مترا

 اترا کے نہ چل خاک پہ یوں پاؤں جمائے

بیٹھی ہے تری آس میں یہ گھات لگائے


ہے تجھ کو پتا وہ کبھی کرتا ہے تجھے یاد

رہتا تُو جسے یاد کئے سب کو بھلائے


رہتا ہے پڑا بے خبری میں تو مسلسل

اب آکے قضأ پیچھا ترا اِس سے چھڑائے


اے دل بتا اِس شہر میں رہتا بھی کہیں وہ

یاں ہم تو چلے آئے ہیں بس تیرے بتائے


ملنے سے پری چہروں کے رسوائی لگی ہاتھ

اب پھریؤ نظر نیچی کئے چہرہ چھپائے


رہتا ہے پھرے شہر شہر صورت درویش

ٹھہرا نہ کہیں پاؤں تو اپنے یہ ٹکائے


ہے بھاگ میں در در کا بھٹکنا ترا شِیامل

یہ در بہ دری مولیٰ کِسی کو نہ دکھائے


شِیامَل مِترا


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...