اترا کے نہ چل خاک پہ یوں پاؤں جمائے
بیٹھی ہے تری آس میں یہ گھات لگائے
ہے تجھ کو پتا وہ کبھی کرتا ہے تجھے یاد
رہتا تُو جسے یاد کئے سب کو بھلائے
رہتا ہے پڑا بے خبری میں تو مسلسل
اب آکے قضأ پیچھا ترا اِس سے چھڑائے
اے دل بتا اِس شہر میں رہتا بھی کہیں وہ
یاں ہم تو چلے آئے ہیں بس تیرے بتائے
ملنے سے پری چہروں کے رسوائی لگی ہاتھ
اب پھریؤ نظر نیچی کئے چہرہ چھپائے
رہتا ہے پھرے شہر شہر صورت درویش
ٹھہرا نہ کہیں پاؤں تو اپنے یہ ٹکائے
ہے بھاگ میں در در کا بھٹکنا ترا شِیامل
یہ در بہ دری مولیٰ کِسی کو نہ دکھائے
شِیامَل مِترا

No comments:
Post a Comment