Urdu Deccan

Monday, March 1, 2021

اصغر گونڈوی

 یوم پیدائش 01 مارچ 1884


وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے

کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے


نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں سے پار ہو جائے

مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہو جائے


تبسم کی ادا سے زندگی بیدار ہو جائے

نظر سے چھیڑ دے رگ رگ مری ہشیار ہو جائے


تجلی چہرۂ زیبا کی ہو کچھ جام رنگیں کی

زمیں سے آسماں تک عالم انوار ہو جائے


تم اس کافر کا ذوق بندگی اب پوچھتے کیا ہو

جسے طاق حرم بھی ابروئے خم دار ہو جائے


سحر لائے گی کیا پیغام بیداری شبستاں میں

نقاب رخ الٹ دو خود سحر بیدار ہو جائے


یہ اقرار خودی ہے دعوئ ایمان و دیں کیسا

ترا اقرار جب ہے خود سے بھی انکار ہو جائے


نظر اس حسن پر ٹھہرے تو آخر کس طرح ٹھہرے

کبھی خود پھول بن جائے کبھی رخسار ہو جائے


کچھ ایسا دیکھ کر چپ ہوں بہار عالم امکاں

کوئی اک جام پی کر جس طرح سرشار ہو جائے


چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے


اصغر گونڈوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...