پل بھر کو میرے خواب میں آ کر چلا گیا
اک شخص میری نیند اڑا کر چلا گیا
ممکن ہے واپسی نہ تو آگے ہے راستہ
تو مجھ کو کیسے موڑ پہ لا کر چلا گیا
نفرت سی ہو گئی ہے مجھے اپنی شکل سے
آئینہ کوئی ایسے دکھا کر چلا گیا
وہ مجھ کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھا
جو مجھ سے اپنی جان چھڑا کر چلا گیا
اشکوں کی بارشیں بھی بجھا پائیں نہ جسے
وہ ایسی آگ دل میں لگا کر چلا گیا
اسکی جدائی نے نہ رکھا کام کا مجھے
کچھ دن جو مجھ سے پیار جتا کر چلا گیا
ہنستے تھے اس کے حال پہ سب لوگ ہی مگر
یاسین آج سب کو رلا کر چلا
گیا
یاسین باوزیر
No comments:
Post a Comment