بچھائے گی لکیریں اور حدیں تشکیل دے گی
ہماری آنکھ غم کی صورتیں تشکیل دے گی
یہ دل اتنی ہی بے انداز وحشت میں جلے گا
محبت جس قدر گنجائشیں تشکیل دے گی
اذیت حرف سب دھندلا کے رکھ دے گی وفا کے
اداسی بے محابا ظلمتیں تشکیل دے گی
میں تیرے واسطے جس درجہ آسانی کروں گا
مرے حق میں تُو اتنی مشکلیں تشکیل دے گی
یہ بے کاری بڑھائے گی بہت سے درد دل کے
یہ بے چینی بہت سی الجھنیں تشکیل دے گی
فقط اس آس پر تم سے اجازت چاہتے ہیں
محبت پھر سے دوبارہ ہمیں تشکیل دےگی
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment