یوم پیدائش 05 اپریل 1922
میرا سایہ ہے مرے ساتھ جہاں جاؤں میں
بے بسی تو ہی بتا خود کو کہاں پاؤں میں
بے گھری مجھ سے پتہ پوچھ رہی ہے میرا
در بدر پوچھتا پھرتا ہوں کہاں جاؤں میں
زخم کی بات بھی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی
دل نہیں پھول کہ ہر شخص کو دکھلاؤں میں
زندگی کون سے ناکردہ گنہ کی ہے سزا
خود نہیں جانتا کیا اوروں کو بتلاؤں میں
ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا
سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں
سلیمان اریب
No comments:
Post a Comment