یوم پیدائش 21 اپریل 1912
کچھ مرے شوق نے در پردہ کہا ہو جیسے
آج تم اور ہی تصویر حیا ہو جیسے
یوں گزرتا ہے تری یاد کی وادی میں خیال
خارزاروں میں کوئی برہنہ پا ہو جیسے
ساز نفرت کے ترانوں سے بہلتے نہیں کیوں
یہ بھی کچھ اہل محبت کی خطا ہو جیسے
وقت کے شور میں یوں چیخ رہے ہیں لمحے
بہتے پانی میں کوئی ڈوب رہا ہو جیسے
کیسی گل رنگ ہے مشرق کا افق دیکھ ندیم
ندی کا خوں رات کی چوکھٹ پہ بہا ہو جیسے
یا مجھے وہم ہے سنتا نہیں کوئی میری
یا یہ دنیا ہی کوئی کوہ ندا ہو جیسے
بحر ظلمات جنوں میں بھی نکل آئی ہے راہ
عشق کے ہاتھ میں موسیٰ کا عصا ہو جیسے
دل نے چپکے سے کہا کوشش ناکام کے بعد
زہر ہی درد محبت کی دوا ہو جیسے
دیکھیں بچ جاتی ہے یا ڈوبتی ہے کشتئ شوق
ساحل فکر پہ اک حشر بپا ہو جیسے
سیداحتشام حسین
No comments:
Post a Comment