Urdu Deccan

Saturday, April 24, 2021

عارف امام

 یوم پیدائش 21 اپریل 1956


کیا کیجیے سخن یہاں سجدہ کیے بغیر

مانا گیا ہمیں کوئی دعویٰ کیے بغیر


یکتائی اُس سے پوچھ کہ اک عمر تک جسے

تنہا رکھا گیا ہو اکیلا کیے بغیر


پل بھر کو بھی نظر نہ ہٹی چارہ ساز سے

اُس نے بھی آنکھ پھیری نہ اچّھا کیے بغیر


رقصِ نشاطِ دید میں جاں سے گزر گیے

برسوں پڑے رہے تھے تماشا کیے بغیر


اُس نے بھی کب نگاہ میں تولا تھا کوئی اور

ہم بھی غلام ہوگیے سودا کیے بغیر


وحشت میں بھی لحاظ ہے تہذیبِ عشق کا

مَیلے ہوئے ہیں داغ کو دھبّا کیے بغیر


بہتا رہے لہو تو اُکھڑتا نہیں ہے دم

جیتے نہیں ہیں زخم کو گہرا کیے بغیر


اونچا ہوئے بغیر بریدہ نہیں ہے سر

بجھتا نہیں چراغ اجالا کیے بغیر


کس خارِ نوک دار سے پھوڑا نہ آبلہ؟

چھوڑا کوئی ببول نہ غنچہ کیے بغیر


مردِ نبرد ہے وہ علم دارِ موزُوں قد

لڑتا نہیں کفن کو پھریرا کیے بغیر


دربار میں خطاب یہ کس بے ردا کا تھا؟

سنتے تھے سب نگاہ کو اونچا کیے بغیر


سینچی نہ وہ زمیں جو ہماری نہ ہوسکی

باندھا کوئی خیال نہ اپنا کیے بغیر


پلٹی ہے جانماز نہ پھیرا کبھی سلام

شکرِ خدا بغیر نہ گریہ کیے بغیر


 عارف امام


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...