یوم پیدائش 21 اپریل 1956
کیا کیجیے سخن یہاں سجدہ کیے بغیر
مانا گیا ہمیں کوئی دعویٰ کیے بغیر
یکتائی اُس سے پوچھ کہ اک عمر تک جسے
تنہا رکھا گیا ہو اکیلا کیے بغیر
پل بھر کو بھی نظر نہ ہٹی چارہ ساز سے
اُس نے بھی آنکھ پھیری نہ اچّھا کیے بغیر
رقصِ نشاطِ دید میں جاں سے گزر گیے
برسوں پڑے رہے تھے تماشا کیے بغیر
اُس نے بھی کب نگاہ میں تولا تھا کوئی اور
ہم بھی غلام ہوگیے سودا کیے بغیر
وحشت میں بھی لحاظ ہے تہذیبِ عشق کا
مَیلے ہوئے ہیں داغ کو دھبّا کیے بغیر
بہتا رہے لہو تو اُکھڑتا نہیں ہے دم
جیتے نہیں ہیں زخم کو گہرا کیے بغیر
اونچا ہوئے بغیر بریدہ نہیں ہے سر
بجھتا نہیں چراغ اجالا کیے بغیر
کس خارِ نوک دار سے پھوڑا نہ آبلہ؟
چھوڑا کوئی ببول نہ غنچہ کیے بغیر
مردِ نبرد ہے وہ علم دارِ موزُوں قد
لڑتا نہیں کفن کو پھریرا کیے بغیر
دربار میں خطاب یہ کس بے ردا کا تھا؟
سنتے تھے سب نگاہ کو اونچا کیے بغیر
سینچی نہ وہ زمیں جو ہماری نہ ہوسکی
باندھا کوئی خیال نہ اپنا کیے بغیر
پلٹی ہے جانماز نہ پھیرا کبھی سلام
شکرِ خدا بغیر نہ گریہ کیے بغیر
عارف امام
No comments:
Post a Comment