Urdu Deccan

Saturday, April 24, 2021

جمال احسانی

 وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے


نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے

وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے


یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے


ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا

پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے


تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے


تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے


اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں

وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے


جمال احسانی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...