صبحِ مغرور کو ہے شام بھی ہوتے دیکھا
نامور شخص کو گمنام بھی ہوتے دیکھا
حُسن سے آنکھ ملانے کی حماقت کر کے
ہم نے انسان کو نیلام بھی ہوتے دیکھا
جس کی امید کبھی تھی ہی نہیں ہونے کی
اپنی آنکھوں سے وہی کام بھی ہوتے دیکھا
جو زمانے میں کبھی خاص ہوئے پھرتے تھے
پھر زمانے نے اُنہیں عام بھی ہوتے دیکھا
جو سمجھتے تھے کہ ناکام نہیں ہو سکتے
شہر بھر نے انہیں ناکام بھی ہوتے دیکھا
کتنا دلکش تھا یہ آغازِ محبت لیکن
اے محبت ترا انجام بھی ہوتے دیکھا
اک زمانے میں جو انمول تھے عابدؔ میں نے
ایسے اشخاص کو بے دام بھی ہوتے دیکھا
ایس،ڈی،عابدؔ
No comments:
Post a Comment