Urdu Deccan

Wednesday, April 28, 2021

راز علیمی



اک تماشا بنا کے لاتے ہیں
خط ہمارا جلا کے لاتے ہیں

جب جوانی کی یاد آتی ہے
مَے کدے سے اُٹھا کے لاتے ہیں

روٹھ کر جا رہی ہے جانِ بہار
باغباں! چل منا کے لاتے ہیں

میں تقاضائِے دِید کرتا ہوں
عُذر وہ رنگِ ،، نَا ،، کے لاتے ہیں

دل تو بَیعُ و شِرا کی چیز نہیں
اس لیے ہم چُرا کے لاتے ہیں

جب گلابوں کی بات ہوتی ہے
اس کی صورت بنا کے لاتے ہیں

میں سویرے وفا کے لاتا ہوں
وہ اندھیرے دغا کے لاتے ہیں

اس کے بِن بزم سونی سونی ہے
چل ذرا ورغلا کے لاتے ہیں

قریۂِ دل سے راز اُمیدوں کی
ساری شمعیں بجھا کے لاتے ہیں

راز علیمیؔ

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...