اک تماشا بنا کے لاتے ہیں
خط ہمارا جلا کے لاتے ہیں
جب جوانی کی یاد آتی ہے
مَے کدے سے اُٹھا کے لاتے ہیں
روٹھ کر جا رہی ہے جانِ بہار
باغباں! چل منا کے لاتے ہیں
میں تقاضائِے دِید کرتا ہوں
عُذر وہ رنگِ ،، نَا ،، کے لاتے ہیں
دل تو بَیعُ و شِرا کی چیز نہیں
اس لیے ہم چُرا کے لاتے ہیں
جب گلابوں کی بات ہوتی ہے
اس کی صورت بنا کے لاتے ہیں
میں سویرے وفا کے لاتا ہوں
وہ اندھیرے دغا کے لاتے ہیں
اس کے بِن بزم سونی سونی ہے
چل ذرا ورغلا کے لاتے ہیں
قریۂِ دل سے راز اُمیدوں کی
ساری شمعیں بجھا کے لاتے ہیں
راز علیمیؔ

No comments:
Post a Comment