آئینوں کو غلام رکھا ہے
ہم نے پہرہ مدام رکھا ہے
صورتیں عکس کے منافی ہوں
بس یہی اہتمام رکھا ہے
اپنے سائے پہ گر گئی دیوار
دشت میں اب قیام رکھا ہے
اے کلیسا کے واعظوں تم نے
کیسا پھیلا کے دام رکھا ہے
ایک ریلا ہے بد شگونی کا
جو نگاہوں نے تھام رکھا ہے
اس کی اپنی اَنا نہیں ٹوٹی
جس کو تم نے امام رکھا ہے
رقص کرتی ہے تشنگی لب پر
گرچہ ہاتھوں میں جام رکھا ہے
لحظہ لحظہ جو موت ہے نقوی
زندگی اس کا نام رکھا ہے
ذوالفقار نقوی

No comments:
Post a Comment