Urdu Deccan

Wednesday, April 14, 2021

ذوالفقار نقوی

 آئینوں کو غلام رکھا ہے

ہم نے پہرہ مدام رکھا ہے


صورتیں عکس کے منافی ہوں

بس یہی اہتمام رکھا ہے


اپنے سائے پہ گر گئی دیوار

دشت میں اب قیام رکھا ہے


اے کلیسا کے واعظوں تم نے 

کیسا پھیلا کے دام رکھا ہے


ایک ریلا ہے بد شگونی کا

جو نگاہوں نے تھام رکھا ہے


اس کی اپنی اَنا نہیں ٹوٹی

 جس کو تم نے امام رکھا ہے


رقص کرتی ہے تشنگی لب پر

گرچہ ہاتھوں میں جام رکھا ہے


لحظہ لحظہ جو موت ہے نقوی

زندگی اس  کا  نام رکھا ہے


ذوالفقار نقوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...