یوم پیدائش 10اپریل 1928
اک تحفہ نو سوئے حرم لے کے چلے ہیں
پہلو میں محبت کا صنم لے کے چلے ہیں
صحرا میں کہاں پر توِ اندازِ گلستان
خود اپنی نگاہوں کا بھرم لے کے چلے ہیں
کیا حال ہے دل کا اسے اب کون بتائے
محفل میں تری دیدۂ نم لے کے چلے ہیں
کانٹوں کا گلہ کیا ہے ہم راہِ طلب میں
اک دشتِ بلا زیر قدم لے کے چلے ہیں
ہر جنبشِ پا کاشفِ اسرار جہاں ہے
ہم جب بھی چلے ساغرِ جم لے کے چلے ہیں
سرمایۂ دل،جنسِ وفا، خواب تمنا
کیا کیا سرِ بازارِ ستم لے کے چلے ہیں
آئی ہے کسی جلوہ گہ ِناز کی پھر یاد
بھولے ہوئے کچھ قول و قسم لے کے چلے ہیں
منزل پہ پہنچ کر عجب افتاد پڑی ہے
اک قافلۂ یاس و الم لے کے چلے ہیں
کام آئی نہ تدبیر کوئی اہل ِوفا کی
آخر وہی تقدیر کا غم لے کے چلے ہیں
سوزِ غمِ الفت کہ سحر سوزِ غمِ دہر
ہر سوز پئے لوح و قلم لے کے چلے ہیں
ابو محمد سحر
No comments:
Post a Comment