سُکھ چین ، اضطراب سے پہلے کی بات ہے
یہ پیار کے عذاب سے پہلے کی بات ہے
دو سے نکالو ایک تو بچتا تھا ایک ہی
یہ عشق کے حساب سے پہلے کی بات ہے
پڑھتے رہے وفاؤں کا مطلب خلوص ہم
یہ ہجر کے نصاب سے پہلے کی بات ہے
پہلے میں کہہ رہا تھا فقط پھول ہی تو ہے
تیرے دیے گلاب سے پہلے کی بات ہے
خوشبو طواف کرتی تھی پلکوں کا نصف شب
آنکھوں میں تیرے خواب سے پہلے کی بات ہے
پہلے تکلفات میں ہم ، تم رہا مگر
یہ آپ اور جناب سے پہلے کی بات ہے.
صدیوں خمار کا رہا الزام آنکھ پر
دنیا میں یہ شراب سے پہلے کی بات ہے
اشفاق احمد صائم
No comments:
Post a Comment