یوم پیدائش 01 مئی 1977
طے شدہ عشق سرِ دار نبھانا ہو گا
جو بھی لکھا ہے مرے یار نبھانا ہو گا
تم نے دیوانے کو ہنستے ہوئے دیکھا ہے کبھی
اب کہانی میں یہ کردار نبھانا ہو گا
وہ جو اک شخص پراسرار نظر آتا ہے
میری وحشت کا خریدار نظر آتا ہے
دلِ درویش صفت شور نہ کر چپ ہو جا
جب تو روتا ہے گنہ گار نظر آتا ہے
یا کسی اور کے ہیں نقش مرے چہرے پر
یا مجھے آئینے کے پار نظر آتا ہے
جب سے میں تیرا طلبگار ہوا ہوں اے دوست
ہر کوئی میرا طلب گار نظر آتا ہے
دکھ تو یہ ہے وہ مرے ساتھ نہیں رہ سکتا
جو مرے ساتھ لگاتار نظر آتا ہے
جو ترے شہر میں بنیادِ محبت تھا شاذ
آج وہ شخص بھی مسمار نظر آتا ہے
ملک شجاع شاذ
No comments:
Post a Comment