کہ ہم سے بے سہاروں کو اذیت ڈھانپ لیتی ہے
وہاں سے بچ نکل آئیں تو وحشت ڈھانپ لیتی ہے
کسی کی یاد ایسی ہے ہمیں ہنسنے نہیں دیتی
ہماری ساری خوشیاں تو محبت ڈھانپ لیتی ہے
کسی سے بھی گلہ کرتا نہیں تیرے رونے کا
اُداسی کو یہ دنیاوی تھکاوٹ ڈھانپ لیتی ہے
کوئی مرتا نہیں ہے دور جانے پر کسی کے اب
یہاں سب کو کوئی نہ کوئی چاہت ڈھانپ لیتی ہے
ہماری تو وفاداری بھی جھوٹی لگتی دنیا کو
تمہاری بیوفائی کو نزاکت ڈھانپ لیتی ہے
یہاں پر لوگ بکتے ہیں جسے چاہو خریدو تم
یہاں پر سب گناہوں کو یہ دولت ڈھانپ لیتی ہے
ہماری زندگی ہے اس قدر سچی اداکاری
فسانے سے نکلتے ہیں حقیقت ڈھانپ لیتی ہے
اُسامہ طاہر
No comments:
Post a Comment