یوم پیدائش 25 اپریل
ہوائے تیز کبھی دھوپ سخت جھیلتا ہوں
مصیبتوں کو مثالِ درخت جھیلتا ہوں
خدا نے کڑوی دواؤں میں ہے شفا رکھی
بڑوں کا اس لئے لہجہ کرخت جھیلتا ہوں
شَجَر کے سائے میں ہوتا تھا وصل دونوں کا
سو آج ہجر بھی زیرِ درخت جھیلتا ہوں
سکونِ قلب نہ آسائشوں میں ڈھونڈ کبھی
فقیر مست زمیں پر٬ میں تخت جھیلتا ہوں
تو جانتا ہے میں کیوں خون تھوکتا ہوں یہاں؟
وہ صدمۂ جگرِ لخت لخت جھیلتا ہوں
سکوت٬ ہجر٬ اداسی٬ سیاہ رات کا دکھ
یہ درد وہ ہیں جو میں تیرہ بخت جھیلتا ہوں
بھٹک رہا ہوں لیئے جسمِ نا تواں صادقؔ
تھکن سے چور بدن پر میں رخت جھیلتا ہوں
محمد ولی صادقؔ
No comments:
Post a Comment