حسن پابند جفا ہو جیسے
یہ کوئی خاص ادا ہو جیسے
یوں تری یاد ہے مرے دل میں
کسی مرگھٹ میں دیا ہو جیسے
ہو گیا سوکھ کے کانٹا ہر پھول
یہ مہکنے کی سزا ہو جیسے
میری فرقت کا غم آگیں عالم
چھپ کے تو دیکھ رہا ہو جیسے
کشتیاں غرق ہوئی جاتی ہیں
ناخدا ہو نہ خدا ہو جیسے
اللہ اللہ ترا انداز خرام
ہر قدم موج صبا ہو جیسے
کتنی پر کیف ہے یہ ظلمت شب
تیری زلفوں کی گھٹا ہو جیسے
تیرے ہونٹوں پہ تبسم توبہ
ماہ و انجم کی ضیا ہو جیسے
ان سے کرتا ہوں تغافل کا گلہ
عشق میں یہ بھی روا ہو جیسے
اس طرح عشق سے دل شاد ہیں ہم
یہی ہر غم کی دوا ہو جیسے
اس سے آتی نہیں اب کوئی صدا
ساز دل ٹوٹ گیا ہو جیسے
دیکھ کر تجھ کو یہ ہوتا ہے گماں
تو مرے دکھ کی دوا ہو جیسے
ان کو یوں ڈھونڈ رہا ہوں پرویزؔ
عشق سے حسن جدا ہو جیسے
No comments:
Post a Comment