خدایا ذرا ان پہ احسان کر دے
جو ہیں آدمی ان کو انسان کر دے
رہیں یاد کے وہ گھروندے سلامت
مگر دل کے آنگن کو ویران کر دے
کبھی اپنے ہی روبرو جب کھڑا ہو
تو آئینہ اس کو بھی حیران کر دے
زمیں تا فلک ہو مرا نام روشن
کچھ ایسا ہی جینے کا سامان کر دے
بہت ناز ہے جن کو اپنی انا پر
کبھی میرے گھر ان کو مہمان کر دے
کروں نام کا اپنے سکہ میں رائج
مجھے ایک دن کا جو سلطان کر دے
اگر صلح منصورؔ کرتے نہیں وہ
تو بڑھ کے لڑائی کا اعلان کر دے
No comments:
Post a Comment