ہوکر حصارِ ذات میں محبوس آئینہ
کرتا ہے درد و کرب کو محسوس آئینہ
کل کو عجب نہیں کہ وہ ثابت ہو خالی نیک
گو آج میرے حق میں ہے منحوس آئینہ
اے کاش کوئی کھول دے تصویر پر یہ راز
کیوں اپنی زندگی سے ہے مایوس آئینہ
خائف شعور ہے کہیں بیتابؔ کر نہ لے
عکسِ توہّمات کو معکوس آئینہ
No comments:
Post a Comment