Urdu Deccan

Wednesday, April 14, 2021

شاہین کاظمی

 آرزو کے سراب 


اُسی نیم شب کے سکوت میں

وہی چاپ تھی وہی آہٹیں


وہ رُکی رُکی سی ہوائےشب

وہ تھمی تھمی سی تھیں دھڑکنیں


وہی عشقِ پیچاں کی بیل تھی 

مری کھڑکیوں پہ جھکی ہوئی


وہی بام و در وہی راستے 

وہی موڑ تھا وہی بے بسی


وہی ڈھلتے چاند کی چاندنی

وہی دُکھتے سانس کے روگ تھے


وہی خواہشیں وہی زندگی

وہی سارے غم وہی سوگ تھے


وہی آنکھ تھی وہی رتجگے

وہی راکھ راکھ سے خواب تھے


وہی فاصلوں کی رداء رہی

وہی آبلوں کے عذاب تھے


وہی طاقچوں میں دھری ہوئی 

مری آس تھی مرے خواب تھے


وہی عشقِ پیچاں کی بیل ہے

وہی اَدھ جلے سے گلاب ہیں


انھیں طاقچوں میں دھری ہوئی

مری آس ہے مرے خواب ہیں


وہی دھوپ ہے وہی دشتِ جاں 

وہی آرزو کے سراب ہیں


شاھین کاظمی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...