یوم پیدائش 06 مئی 1972
فلک سے جب بھی کسی نے ہمیں اِشارہ کیا
سو اپنے ہونے, نہ ہونے کا استخارہ کیا
کیا جو بند کسی نے بھی دل کا دروازہ
پھر اُس طرف کا کبھی رُخ نہیں دوبارہ کیا
مکین کوئی نہیں رہتے جن مکانوں میں
نہ جانے کس لیے ہم نے اُنھیں سنوارا کیا
میں وہ تھا جس نے تِری شب اُجالنے کے لیے
جبیں کو چاند کیا, اشک کو ستارہ کیا
مِرے نواح و مضافات میں ہے حبس اشرف
سو میں نے لُو کو ہواؤں کا استعارہ کیا
اشرف نقوی
No comments:
Post a Comment