یوم پیدائش 01 مئی 1932
روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے
لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے
جسم کو آئنہ دکھلاتے ہیں سائے ورنہ
آدمی کے لیے اچھا تھا اجالوں میں رہے
وقت سے پہلے ہو کیوں ذہن پہ خورشید کا بوجھ
رات باقی ہے ابھی چاند پیالوں میں رہے
پھر تو رہنا ہی ہے گھورے کا مقدر ہو کر
پھول تازہ ہے ابھی ریشمی بالوں میں رہے
شوق ہی ہے تو بہرحال تماشا بنیے
یہ ضروری نہیں وہ دیکھنے والوں میں رہے
اب کلنڈر میں نیا ڈھونڈئیے چہرہ شاہدؔ
کب تلک ایک ہی تصویر خیالوں میں رہے
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment