یوم وفات 01/05/2021
پتھروں کے درمیاں بہتی ندی اچھی لگی
جب حصار غم میں گزری زندگی اچھی لگی
ایک پتھر پھینکنے پر گاؤں کے تالاب میں
پر سکوں موجوں کی اکثر برہمی اچھی لگی
شب کی تنہائی میں دروازے پہ دستک دفعتاً
گھپ اندھیرے میں اچانک روشنی اچھی لگی
بخشی ہے چاندنی کہرے کو بھی تابانیاں
اس کے چہرے پر اداسی ہی سہی اچھی لگی
جس طرح چاہا تصور نے تراشا وہ بدن
بستر احساس پر اس کی کمی اچھی لگی
درمیاں کانٹوں کے بھی شاداب تھے مسرور تھے
جانے کیوں پھولوں کی یہ شائستگی اچھی لگی
اب کے ہم بھٹکے تو راہ راست پر آجائیں گے
سیدھے رستے سے معظم گمرہی اچھی لگی
معظم علی خان
No comments:
Post a Comment