یوم پیدائش 10 مئی 1958
ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے
مرا ہنر مجھے اکثر نڈھال کرتا ہے
وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل
تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے
مرے وجود کو صدیوں کا سلسلہ دے کر
وہ کون ہے جو مجھے لا زوال کرتا ہے
بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا
ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے
میں چاہتا ہوں مراسم بس ایک سمت چلیں
مگر وہ خود ہی جنوب و شمال کرتا ہے
دعا کا در تو سبھی کے لئے کھلا ہے مگر
جسے یقین ہو اس پر سوال کرتا ہے
حامد اقبال صدیقی
No comments:
Post a Comment