یوم پیدائش 01 مئی 1971
منصف! یہ مرے صبر کی بھی آخری حد ہے
جو فیصلہ ہے تیرے مظالم کی سند ہے
منظور جہاں کو نہیں باطل کا تصور
بس فلسفۂ حق ہے جو نا قابلِ رد ہے
آئینۂ تہذیب تھے جو لوگ اب ان کا
اخلاق بھی معیوب ہے کردار بھی بد ہے
یہ کیا کہ بدن بھی نہ چھپا پاؤں خدایا
چادر مجھے ایسی دے کہ جیسا مرا قد ہے
بخشی ہے مجھے رب نے قناعت کی یہ دولت
لوگوں کا کرم ہے نہ حکومت کی مدد ہے
ایسے بھی بہت لوگ ہیں اس بزم ہوس میں
جو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہاں کون سا مد ہے
سو جائیں گے بچے تو میں گھر جاؤں گا خالد
ہے ہاتھ میں پیسہ، نہ مرے گھر میں رسد ہے
خالد اعظم
No comments:
Post a Comment