نظم ( پگلی اردو)
ابر خاماش تھا مغموم گھٹا بھی چپ تھی
چاند پھیکا تھا ستاروں کی ضیا بھی چب تھی
اشک آنکھوں میں لئے آج ہوا بھی چپ تھی
یعنی ماحول تھا چپ چاپ فضا بھی چپ تھی
ہاں مگر دور بہت دور کہیں کونے سے
ہلکی ہلکی سی کبھی روشنی آجاتی تھی
چند لمحوں کے لئے چیر کے سناٹے کو
چینخ اک شخص کی ماحول سے ٹکراتی تھی
میں بھی تھا وقت کا دربان وہاں جا پہنچا
کتنا غمناک سماں تھا وہ جو میں نے دیکھا
جسم اک بڑھیا کا اک کھاٹ پہ تھا رکھا ہوا
پاس ہی بیٹھی ہوئی بیٹیوں سے اس نے کہا
بیٹیوں تم کو مری عزت و عظمت کی قسم
بیٹیوں تم کو مرے پیا ر و محبت کی قسم
تم ہو جڑوا کبھی تم دونوں الگ مت ہونا
خون کے رشتے میں پنہاں مری شفقت کی قسم
تھی یہیں بات کہ اک موت کی ہچکی آئی
شمع اخلاص نے اک بارگی دم توڑ دیا
لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شرابی کی طرح
شب کے ماحول نے اک ساغر جم توڑ دیا
چند لمحات سکوں کے نہ گزر پائے تھے
انقلابات زمانہ کا وہ طوفان اٹھا
جس نے دو پھول سی جانوں کو جدائی دے کر
ایک کو قصر میں اور اک کو قفس میں رکھا
ایک زندہ ہے تو اس دور میں شاہوں کے لئے
دوسری مفلس و نادار و گداؤں کے لئے
اک کی بہبودی پہ ہر دل کی نظر رہتی ہے
ایک مجبور ہے خود اپنی پناہوں کے لئے
ایسا کیوں کر ہے یہی سوچ کے اک دن من میں
جو مقید تھی وہ زنداں سے نکل آتی ہے
ہاتھ میں ہتھکڑی اور پاؤں میں پہنے بیڑی
نئے حالات سے ماحول کےگھبراتی ہے
شب کی تنہائی ہو یا دن کا کوئی ہنگامہ
حال دل سب سے نہیں خود سے کہا کرتی ہے
چینخ اٹھتی ہے کبھی سوچ کے ماضی اپنا
اور پھر زور سے پردرد صدا کرتی ہے
مخملی کپڑوں میں لپٹے ہوئے دولت والوں
اک نظر جسم غریباں پہ اٹھا کر دیکھو
تم نے جس چیز کو سمجھا ہے صفر کی مانند
اس کے اک زرے کو بھی ہاتھ لگا کر دیکھو
لوگ ہر سمت سے برساتے ہیں پتھر اس پر
آبرو اس کی سر عام لٹی جاتی ہے
جس طرف چلتی ہے ننگی وہ کھلی سڑکوں پر
نام سے پگلی کے منسوب ہوئی جاتی ہے
ہیں حقیقت میں یہی دونوں حقیقی بہنیں
ایک ہے" ہندی زباں" دوسری "پگلی اردو"
گردش وقت نے کچھ ایسا چلایا جادو
رہ گئے ہو کے جدا جسم کے دو بوند لہو
شارق خلیل آبادی
No comments:
Post a Comment