یوم پیدائش 5 مئ 1958
خون کے دیپ فصیلوں پے جلا رکھےہیں
اپنے انداز زمانے سے جدا رکھے ہیں
دل میں امید نہیں لب پے کوئی بات نہیں
ہاتھ پھر بھی تو دعاؤں کو اٹھا رکھے ہیں
گھل رہاہے کہ وہ اوروں کو بتائے کیسے
خواب گونگے نے بھی آنکھوں میں بسا رکھے ہیں
یہ الگ بات کہ اظہار تلک آنہ سکے
دل میں جذبات مگر بیش بہا رکھے ہیں
اپنی عمروں کا لہو دے کےا نہیں پالا ہے
ہم نے تو درد بھی بیٹوں سے سوا رکھےہیں
کوئی وعدہ ہی نہیں ہے کہ کوئی آئےگا
جانے کیوں راہ میں دل پھول کھلا رکھے ہیں
کتنے ڈرپوک پیں عرفی یہ قبیلے والے
گزرے وقتوں کے سبھی قرض اٹھارکے ہیں
سمیع اللہ عرفی
No comments:
Post a Comment