Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

ندیم اعجاز

 دل یوں سحر کے واسطے مت بے قرار کر

ظلمت کی شب گزرنے کو ہے اعتبار کر


سودا ہے سر پہ کیسے میں روکوں زبان کو

جو جی میں آئے وہ ہی روش اختیار کر


قاتل کو میری لاش پہ جو چارہ گر کہے

اُس کو بھی میرے قتل میں شامل شمار کر


محشر تو کر چکے ہیں بپا اہلِ اقتدار

تو بیٹھ کے فلک پہ یونہی انتظار کر


دھرتی کی الفتوں میں کروں اور کیا بتا

دے تو رہا ہوں جان میں صدقے میں وار کر


مت خوف کھا ندیم تُو جابر کے جبر سے

کر جبر پر مزاحمت اور بار بار کر


ندیم اعجاز


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...