یوم پیدائش 15 جون 1927
وہ لہو روئی ہیں آنکھیں کہ بتانا مشکل
اب کوئی خواب ان آنکھوں میں سجانا مشکل
کتنی یادیں تھیں کہ گرد رہ ایام ہوئیں
کتنے چہروں کا ہوا دھیان میں لانا مشکل
کتنے شب خوں تھے اجالوں پہ جو مارے نہ گئے
کتنی شمعیں تھیں ہوا جن کا جلانا مشکل
کتنے دروازے دلوں کے تھے جو دیوار بنے
ایسی دیوار کہ در جس میں بنانا مشکل
رنگ جتنے تھے بہاروں میں بہاروں سے گئے
اس چمن زار میں اب جی کا لگانا مشکل
وہ بھی اے شہر نگاراں تھا کوئی موسم خواب
بیت جانے پہ بھی ہے جس کو بھلانا مشکل
رقص کرتے ہوئے کانٹوں پہ چلے ہم ورنہ
ہر قدم راہ میں تھا پھول کھلانا مشکل
یوں ہی چڑھتا رہا گر درد کا دریا تو جمالؔ
کشتیٔ جاں کو کنارے سے لگانا مشکل
جمال پانی پتی
No comments:
Post a Comment