Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

شاعر جمالی

 یوم پیدائش 15 جون 1943


مرے نصیب کا لکھا بدل بھی سکتا تھا

وہ چاہتا تو مرے ساتھ چل بھی سکتا تھا


یہ تو نے ٹھیک کیا اپنا ہاتھ کھینچ لیا

مرے لبوں سے ترا ہاتھ جل بھی سکتا تھا


اڑاتی رہتی ہے دنیا غلط سلط باتیں

وہ سنگ دل تھا تو اک دن پگھل بھی سکتا تھا


اتر گیا ترا غم روح کی فضاؤں میں

رگوں میں ہوتا تو آنکھوں سے ڈھل بھی سکتا تھا


میں ٹھیک وقت پہ خاموش ہو گیا ورنہ

مرے رفیقوں کا لہجہ بدل بھی سکتا تھا


انا کو دھوپ میں رہنا پسند تھا ورنہ

ترے غرور کا سورج تو ڈھل بھی سکتا تھا


رگڑ سکی نہ مری پیاس ایڑیاں ورنہ

ہر ایک ذرے سے چشمہ ابل بھی سکتا تھا


پسند آئی نہ ٹوٹی ہوئی فصیل کی راہ

میں شہر تن کی گھٹن سے نکل بھی سکتا تھا


وہ لمحہ جس نے مجھے ریزہ ریزہ کر ڈالا

کسی کے بس میں جو ہوتا تو ٹل بھی سکتا تھا


شاعر جمالی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...