یوم پیدائش 15 جون 1943
مرے نصیب کا لکھا بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا تو مرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
یہ تو نے ٹھیک کیا اپنا ہاتھ کھینچ لیا
مرے لبوں سے ترا ہاتھ جل بھی سکتا تھا
اڑاتی رہتی ہے دنیا غلط سلط باتیں
وہ سنگ دل تھا تو اک دن پگھل بھی سکتا تھا
اتر گیا ترا غم روح کی فضاؤں میں
رگوں میں ہوتا تو آنکھوں سے ڈھل بھی سکتا تھا
میں ٹھیک وقت پہ خاموش ہو گیا ورنہ
مرے رفیقوں کا لہجہ بدل بھی سکتا تھا
انا کو دھوپ میں رہنا پسند تھا ورنہ
ترے غرور کا سورج تو ڈھل بھی سکتا تھا
رگڑ سکی نہ مری پیاس ایڑیاں ورنہ
ہر ایک ذرے سے چشمہ ابل بھی سکتا تھا
پسند آئی نہ ٹوٹی ہوئی فصیل کی راہ
میں شہر تن کی گھٹن سے نکل بھی سکتا تھا
وہ لمحہ جس نے مجھے ریزہ ریزہ کر ڈالا
کسی کے بس میں جو ہوتا تو ٹل بھی سکتا تھا
شاعر جمالی
No comments:
Post a Comment