یوم پیدائش 29 جون 1914
دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
چاندنی نیم وا دریچہ سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے
تمتماتا ہے چہرۂ ایام
دل پہ کیا واردات گزری ہے
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج
کتنی یادوں کے سات گزری ہے
پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ نسیم حیات گزری ہے
بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے رات گزری ہے
مجید امجد
No comments:
Post a Comment