یوم پیدائش 16 جون 1957
پھر بھی نہیں کہتا کہ وہ بہتر نہیں نکلے
باہر کئی منظر تھے جو اندر نہیں نکلے
تا عمر اب اندر ہی کہیں گرتے رہیں گے
رویا ہوں تو آنسو مرے باہر نہیں نکلے
پتھر کے زمانے سے نکل آئے ہیں لیکن
سوچوں سے ہماری ابھی پتھر نہیں نکلے
سر پھوڑتے رہتے ہیں سر شہر الم میں
لیکن سر دیوار جنوں در نہیں نکلے
اک بار یہ دل خانماں برباد ہوا تھا
لگتا ہے ابھی دل سے وہی ڈر نہیں نکلے
کیا ہے کہ اگر میں کوئی فرہاد نہ نکلا
تم بھی تو مقدر کے سکندر نہیں نکلے
دریائے محبت کا مجھے دعویٰ نہیں تھا
پر تم بھی محبت میں سمندر نہیں نکلے
یشب تمنا
No comments:
Post a Comment