یوم پیدائش 30مئی 1953
سلسلے خواب کے اشکوں سے سنورتے کب ہیں
آج دریا بھی سمندر میں اترتے کب ہیں
وقت اک موج ہے آتا ہے گزر جاتا ہے
ڈوب جاتے ہیں جو لمحات ابھرتے کب ہیں
یوں بھی لگتا ہے تری یاد بہت ہے لیکن
زخم یہ دل کے تری یاد سے بھرتے کب ہیں
لہر کے سامنے ساحل کی حقیقت کیا ہے
جن کو جینا ہے وہ حالات سے ڈرتے کب ہیں
یہ الگ بات ہے لہجے میں اداسی ہے شمیمؔ
ورنہ ہم درد کا اظہار بھی کرتے کب ہیں
فاروق شمیم

No comments:
Post a Comment